Tahzeeb Hafi sad poetry in Urdu | Tahzeeb Hafi ghazal |
Tahzeeb Hafi poetry
غلط نکلے سب اندازے ہمارے
کہ دن آئے نہیں اچھے ہمارے
galt niklay sub andaz humary
kay din ay ni achy humary
سفر سے باز رہنے کو کہا ہے
کسی نے کھول کر تسمے ہمارے
safar say baz rahnay ko kaha ha
kise nay khol kay tasmay humary
ہر اک موسم بہت اندر تک آیا
کُھلے رہتے تھے دروازے ہمارے
har mosam both andar tak aya ha
kholay rahtay thay darwazay humaray
اگر ہم پر یقیں آتا نہیں تو
کہیں لگوا لو انگوٹھے ہمارے
agar hum paay yakeen ata nhi to
kahin lagwa lo angothay humary
بشارت دی ہے آزادی کی اُس نے
ہوا میں پھینک کر پبجرے ہمارے
beshirat di ha azadi ke os nay
hawa may phonk kay pbjaray humary
اُس ابر ِ مہرباں سے کیا شکایت
اگر برتن نہیں بھرتے ہمارے
os abr mehrban say kya shaqayat
agr bartan ni bhartay humary
مہینے بعد بیٹی سے ملا ہوں
ہمیں لے دے گئے جھگڑے ہمارے
mahenay bad bati say mila hon
humay lay day gay gagray humary
tahzeeb hafi ghazal
تہزیب حافی کی خوبصورت غزل
ہاں یہ سچ ہے کہ محبت نہیں کی
یار بس میری طبیعت نہیں کی
han ya such ha kay muhabat ni ke
yar bas mari tabyat ni ke
میرے اعزاز میں رکھی گئی تھی
میں نے جس بزم میں شرکت نہیں کی
mary aazaz may rakhi gai thi
ma nay jis bazam may sharkat ke thi
جسم تک اس نے مجھے سونپ دیا
دل نے اس پر بھی قناعت نہیں کی
jis tak os nay mujy somp dia
dil nay os par be kanyat ni ke
دوست سینے سے لگایا تیرا ہجر
میں نے دشمن سے بھی نفرت نہیں کی
dost senay say lagya tara hijar
ma nay doshman say kabi nafrat ni ke
اس لیے گاؤں میں سیلاب آیا
ہم نے دریاؤں کی عزت نہیں کی
es liay gaon may seclab aya
hum nay daryaon ke izat ni ke
جانے اس شخص کو کیا جلدی تھی
اس نے ملنے کی بھی زحمت نہیں کی
janay os shaks ko kya jaldi thi
os nay milnay ke be zahmat ni ke
اور تیرے ہجر میں کیا کرنا تھا
بس نمی آنکھ سے رخصت نہیں کی
or tary hijar may kya karna tha
bass nami ankh say rokhsat ni ke
پلٹ کے آئے تو سب سے پہلے تجھے ملیں گے
اُسی جگہ پر جہاں کئی راستے ملیں گے
palat kay ayn to sub say pahlay tujhy milayn gay
osi gaja par jahn kai rastay milayn gay
تجھے یہ سڑکیں مرے توسط سے جانتی ہیں
تجھے ہمیشہ یہ سب اشارے کھلے ملیں گے
tujhy ya sarkay mary towasat say janti han
tujhy hamasha ya rastay kholay milayn gay
اگر کبھی تیرے نام پر جنگ ہو گئی تو
ہم ایسے بزدل بھی پہلی صف میں کھڑے ملیں گے
agr tary nam par jang ho gai to
hum asy bosdal be pahli saf may milayn gay
نہ جانے کب تیری آنکھیں چھلکیں گی میرے غم میں
نہ جانے کس دن مجھے یہ برتن بھرے ملیں گے
na janay kab tari ankhyan chalk gai mary gummay
na jany mujy kis din mujy ya bartan bharay mily gay
ہمیں بدن اور نصیب دونوں سنوارنے ہیں
ہم اس کے ماتھے کا پیار لے کر گلے ملیں گے
hmay badan or naseeb dono sawarnay han
hum os kay mathay ka payar lay kar galay milay gay
تُو جس طرح چوم کر ہمیں دیکھتا ہے حافی
ہم ایک دن تیرے بازوؤں میں مرے ملیں گے
tu jis tara jhom kar humay dakhta ha hafi
ak din tary bazaon may mary milay gay
تہذیب حافی
Tahzeeb Hafi sad poetry in Urdu | Tahzeeb Hafi ghazal |
tehzeeb hafi poetry lyrics
رُکو تو تم کو بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی اَکیلے اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
طبیب نے کہا ، گر رَنگ گورا رَکھنا ہے
تو چاندنی سے بچائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ بادلوں پہ کمر سیدھی رَکھنے کو سوئیں
کرن کا تکیہ بنائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ نیند کے لیے شبنم کی قرص بھی صاحب
بغیر پانی نہ کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بدن کو چومیں جو بادل تو غسل ہوتا ہے
دَھنک سے غازہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ دو قدم بھی چلیں پانی پہ تو چھالے دیکھ
گھٹائیں گود اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی چٹکنے کی گونجے صدا تو نازُک ہاتھ
حسین کانوں پہ لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
پسینہ آئے تو دو تتلیاں قریب آ کر
پروں کو سُر میں ہلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
ہَوائی بوسہ پری نے دِیا ، بنا ڈِمپل
خیال جسم دَبائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ گھپ اَندھیرے میں خیرہ نگاہ بیٹھے ہیں
اَب اور ہم کیا بجھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ گیت گائیں تو ہونٹوں پہ نیل پڑ جائیں
سخن پہ پہرے بٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
جناب کانٹا نہیں پنکھڑی چبھی ہے اُنہیں
گھٹا کی پالکی لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کبوتروں سے کراتے ہیں آپ جو جو کام
وُہ تتلیوں سے کرائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ پانچ خط لکھیں تو ’’شکریہ‘‘ کا لفظ بنے
ذِرا حساب لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
گواہی دینے وُہ جاتے تو ہیں پر اُن کی جگہ
قسم بھی لوگ اُٹھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
ہر ایک کام کو ’’مختارِ خاص‘‘ رَکھتے ہیں
سو عشق خود نہ لڑائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ سانس لیتے ہیں تو اُس سے سانس چڑھتا ہے
سو رَقص کیسے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
بس اِس دلیل پہ کرتے نہیں وُہ سالگرہ
کہ شمع کیسے بجھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
اُتار دیتے ہیں بالائی سادہ پانی کی
پھر اُس میں پانی ملائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ سیر ، صبح کی کرتے ہیں خواب میں چل کر
وَزن کو سو کے گھٹائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کلی کو سونگھیں تو خوشبو سے پیٹ بھر جائے
نہار منہ یہی کھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وَزن گھٹانے کا نسخہ بتائیں کانٹوں کو
پھر اُن کو چل کے دِکھائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ دَھڑکنوں کی دَھمک سے لرزنے لگتے ہیں
گلے سے کیسے لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
نزاکت ایسی کہ جگنو سے ہاتھ جل جائے
جلے پہ اَبر لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
حنا لگائیں تو ہاتھ اُن کے بھاری ہو جائیں
سو پاؤں پر نہ لگائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تِل کے بوجھ سے بے ہوش ہو گئے اِک دِن
سہارا دے کے چلائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
کل اَپنے سائے سے وُہ اِلتماس کرتے تھے
مزید پاس نہ آئیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
وُہ تھک کے چُور سے ہو جاتے ہیں خدارا اُنہیں
خیال میں بھی نہ لائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
پری نے پیار سے اَنگڑائی روک دی اُن کی
کہ آپ ٹوٹ نہ جائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
غزل وُہ پڑھتے ہی یہ کہہ کے قیس رُوٹھ گئے
کہ نازُکی تو بتائیں ، وُہ اِتنے نازُک ہیں
ہم ایک عمر اسی غم میں مبتلا رہے تھے
وہ سانحے ہی نہیں تھے جو پیش آ رہے تھے
اسی لیے تو مرا گاؤں دوڑ میں ہارا
جو بھاگ سکتے تھے بیساکھیاں بنا رہے تھے
میں جانتا ہوں تُو اُس وقت بھی نہیں تھا وہاں
یہ لوگ جب تری موجودگی منا رہے تھے
میں گھر میں بیٹھ کے پڑھتا رہا سفر کی دعا
اور اُن کے واسطے جو مجھ سے دور جا رہے تھے
وہ قافلہ تری بستی میں رات کیا ٹھہرا
ہر اک کو اپنے پسندیدہ خواب آ رہے تھے
بغیر پوچھے بیاہے گئے تھے ہم دونوں
قبول کہتے ہوئے ہونٹ تھر تھرا رہے تھے
تہذیب حافی ❤️
Tahzeeb Hafi sad poetry in Urdu | Tahzeeb Hafi ghazal |
tahzeeb hafi
یہ کون راہ میں بیٹھے هیں مسکراتے ہیں
مسافروں کو غلط راستہ بتاتے ہیں
ترے لگائے ہوئے زخم کیوں نہیں بھرتے
مرے لگائے ہوئے پیڑ سوکھ جاتے ہیں
اِنہیں گلہ تھا کہ میں نے اِنہیں نہیں چاہا
یہ اب جو میری توجہ سے خوف کھاتے ہیں
کوئی تمھارا سفر پر گیا تو پوچھیں گے
کہ ریل گزرے تو ہم ہاتھ کیوں ہلاتے ہیں
جو بات اپنے لیے دوستوں کے منہ سے سُنی
دوبارہ بولوں تو ہونٹوں پہ زخم آ تے ہیں
تہزیب حاف
tahzeeb hafi ghazal
سو رہیں گے کہ جاگتے رہیں گے۔۔۔
ہم تیرے خواب دیکھتے رہیں گے ۔۔۔
تو کہیں اور ہی ڈھونڈتا رہے گا ۔۔۔
ہم کہیں اور ہی کھلے رہیں گے ۔۔۔
راہ گیروں نے راہ بدلنی ہے ۔۔۔
پیڑ اپنی جگہ کھڑے رہیں گے ۔۔۔
سبھی موسم ہیں دسترس میں تیری ۔۔۔
تو نے چاہا تو ہم ہرے رہیں گے ۔۔۔
لوٹنا کب ہے تو نے لیکن ۔۔۔
عادتا ہی پکارتے رہیں گے ۔۔۔
تجھ کو پانے کا مسئلہ یہ ہے ۔۔۔
تجھ کو کھونے کے وسوسے رہیں گے ۔۔۔
تو ادھر دیکھ مجھ سے باتیں کر۔۔۔۔
یار چشمے تو پھوٹتے رہیں گے ۔۔۔۔
ایک مدت ہوئی تجھ سے ملے ۔۔۔۔
تونے تو کہا تھا رابطے رہیں گے
watch more poems & poetry:
Click these links.
Thank you so much for reading.
I hope you like our best collection of Tahzeeb Hafi sad poetry in Urdu | Tahzeeb Hafi ghazal helpful please don't be cheap to share the collection also to your friends.
Post a Comment
Thank you visitor we will reply soon.